نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی : پہلا حصہ


اللہ اللہ! ایک وہ زمانہ تھا کہ میں اور دانی، مولوی صاحب مرحوم کی باتیں سنتے تھے۔ ان کی ہمت ہماری ہمت بڑھاتی تھی، ان کا طرز بیان ہماری تحریر کا رہبر ہوتا تھا، ان کی خوش مذاقی خود ان کو ہنساتی اور ہمارے پیٹ میں بل ڈالتی تھی، ان کی تکلیفیں خود ان کو پر نم اور ہم کو تڑپاتی تھیں۔ اور آج وہ دن ہے کہ ان کے حالات زبان قلم پر لانے سے سے ڈر لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ بزرگ ہستی اخوت اسلامی کا سبق پڑھے ہوئے تھی۔ اس کو اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے پر ناز تھا۔ وہ چھوٹے درجے سے بڑے درجے پر ترقی کرنا اپنا کارنامہ سمجھتی تھی۔ اس نے جو کچھ کیا اور جو کچھ کر دکھایا، وہ کسی کی خوشامد، کسی کی سفارش یا کسی خاندانی وجاہت کے باعث نہ تھا۔ وہ تھا اور دنیا کا وسیع اکھاڑا۔ 

وہ اپنے دست و بازو کے بھروسے پر اس میدان میں اترا، ہر مصیبت کا سامنا اپنی ذاتی قابلیت و ہمت سے کیا۔ جس کا م میں ہاتھ ڈالا، اس کی تکمیل میں خون پانی ایک کر دیا اور دنیا پر بہ خوبی ثابت کر دیا کہ بے یاری اور مدد گاری، ترقی کی راہ میں ایسی رکاوٹیں نہیں ہیں جو بہ آسانی ہٹائی نہ جا سکیں اور خاندانی تعلقات کی عدم موجودگی، ایسی چیز نہیں ہے جو مانع ترقی ہو سکے۔ جب کبھی جوش میں آتے تو ہمیشہ I am a self made man کا فقرہ ضرور استعمال کیا کرتے اور جب کبھی اس پہلو پر نصیحت کرتے، تو ہمیشہ یہی فرماتے کہ بیٹا! جو کچھ کرنا ہے خود کرو، باپ داد کی ہڈیوں کے واسطے سے بھیک نہ مانگتے پھرو۔ 

انسان، فطرت سے مجبور ہے۔ جب دنیا کی نظریں اس پر پڑنے لگتی ہیں، تو وہ ہمیشہ اپنی پہلی حالت کی کمزوریوں کو چھپاتا اور خوبیوں کو دکھاتا ہے۔ جس طرح بڑے بڑے گھرانوں کی نا اہل اولاد اپنے باپ دادا کے نام سے اپنی نالائقی کو چھپاتی ہے، اسی طرح غریب گھرانوں کی لائق اولاد چاہتی ہے کہ ان کے باپ دادا کے نام لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائیں۔ یہ ہماری اخلاقی کمزوری اور یہ ہے ہماری اسلامی سبق سے بے خبری۔ ایک مولوی نذیر احمد خاں تھے، جو اپنے آباء و اجداد کا نقشہ اصلی رنگ میں دکھاتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ ان کو اپنی ابتدائی غربت پر ناز تھا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’میاں! اگر لفٹننٹ گورنر کے بیٹے ہو، تو کم سے کم ڈپٹی کمشنر تو ہو جاؤ، دس روپے کے اہل کار ہو کر باپ کو لفٹیننٹ گورنر کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی۔‘‘ 

بہر حال یہ فطرت انسانی کا خیال تھا جس نے اب تک مجھے مولوی صاحب مرحوم کے حالات لکھنے سے روکا۔ بہت کچھ لکھ لیا تھا، وہ پھاڑ ڈالا کہ کہیں اینچن چھوڑ گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ رہ رہ کر جوش آتا تھا اور ٹھنڈا پڑ جاتا تھا۔ خدا بھلا کرے مولوی عبد الحق صاحب کا کہ انہوں نے مجھے اس اگر مگر سے نکالا اور دل کی باتوں کو حوالہ قلم کرنے پر آمادہ کر دیا۔ اب جو کچھ کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے وہ لکھوں گا اور بے دھڑک لکھوں گا، خواہ کوئی برا مانے یا بھلا۔ جہاں مولوی صاحب مرحوم کی خوبیاں دکھاؤں گا، وہاں ان کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دوں گا، تاکہ اس مرحوم کی اصلی اور جیتی جاگتی تصویر کھنچ جائے اور یہ چند صفحات ایسی سوانح عمری نہ بن جائیں جو کسی کےخوش کرنے یا جلانے کو لکھی گئی ہو۔ 

میں واقعات کے بیان کرنے میں کوئی سلسلہ بھی قائم نہ کروں گا کیونکہ یہ بناوٹ کی صورت ہے۔ جس موقع پر جو کچھ سنایا دیکھا، اس کو جوں کا توں لکھ دوں گا اور ہمیشہ اس امر کی کوشش کروں گا کہ جہاں تک ممکن ہو، واقعات مولوی صاحب کی زبان میں بیان کئے جائیں۔ انشاء اللہ واقعات کے اظہار میں مجھ سے غلطی نہ ہوگی، ہاں یہ ممکن ہے کہ بعض نام بھول جانے کی وجہ سے چھوڑ جاؤں یا غلط لکھ جاؤں۔ اب رہا سچ یا جھوٹ تو اس کی مجھے پروا نہیں۔ میں اپنے محترم استاد کے حالات لکھ رہا ہوں۔ اگر سچ ہیں، تو میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ اگر جھوٹ ہیں تو وہ خود میدان حشر میں، سود در سود لگا کر تاوان وصول کر لیں گے۔ 

اب رہا طرز بیان، تو اس میں متانت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہوں، کیونکہ مولوی صاحب جیسے خوش مذاق آدمی کے حالت لکھنے میں متانت کو دخل دینا ان کا منہ چڑانا ہی نہیں ان کی توہین کرنا ہے، بلکہ یوں کہو کہ سید ا نشا کو میر اور مارک ٹوئن کو امر سن بنانا ہے۔ جب اپنی زندگی میں انہوں نے میری شوخ چشمی کی ہنس ہنس کر داد دی، تو کوئی وجہ نہیں کہ اب وہ اپنی وضع داری کو بدل دیں اور میری صاف گوئی کو گستاخی قرار دے کر دعوے دار ہوں۔۔۔ چل رے خامے بسم اللہ۔ 

1903 میں میاں دانی نے اور میں نے ہندو کالج دہلی سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور دونوں مشن کالج میں داخل ہو گئے۔ ایف اے میں میرا مضمون اختیاری سائنس اور دانی کا عربی تھا۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ بے اے میں عربی لے لو، دونوں کوایک دوسرے سے مدد ملے گی اور امتحان کی تیاری میں سہولت ہوگی۔ مجھے اپنے حافظے پر گھمنڈ تھا، یہ بھی نہ سمجھا کہ اس مضمون کو سنبھال بھی سکوں گا یا نہیں، جھٹ راضی ہو گیا۔ القصہ ہم دونوں بی اے کے درجہ ابتدائی میں شریک ہو گئے۔ ہمارے عربی کے پروفیسر مولوی جمیل الرحمان صاحب تھے، بڑے اللہ والے لوگ تھے، عربی کا گھنٹا بہ آسانی تصوف کی باتوں میں گزر جاتا تھا، کچھ تھوڑا بہت پڑھ بھی لیتے تھے، دانی کچھ سمجھتے ہوں تو سمجھتے ہوں، کمترین تو توتے کی طرح حفظ کر لیتا تھا۔ اب رہی صرف و نحو، اس میں تو کورے کا کورا ہی رہا۔ 

سنتے آئے ہیں کہ مصیبت کہہ کر نہیں آتی، لیکن یہ نہیں سنا تھا کہ عربی کے پروفیسر کہہ کر نہیں جاتے۔ ایک دن جو مولوی صاحب کے کمرے میں ہم دونوں پہنچے تو دیکھا کہ کمرا خالی ہے۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کل شام کو استعفیٰ دے کر کعبۃ اللہ چل دیے۔ پرنسپل صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے کورا جواب دے دیا کہ ہم عربی کی جماعت کا بندوبست نہیں کر سکتے، بہتر یہ ہے کہ مضمون تبدیل کر لو۔ میں نے دانی سے کہا کہ بھئی تمہارے کہنے سے میں نے عربی لی تھی، اب میرے کہنے پر تم سائنس لے لو۔ جس سہولت کی بنا پر تم نے میرا مضمون بدلوایا تھا، اب اسی سہولت کے مد نظر اپنا مضمون بدلو۔ بہ قول شخصے کہ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ وہ راضی ہو گئے۔ دفتر جا کر جو لکچروں کا حساب کیا تو معلوم ہوا کہ مضمون تبدیل کرنے کا وقت نہیں رہا، لکچر کم رہ جائیں گے اور اس طرح بجائے دو سال کے تین سال میں شریک امتحان ہونا پڑے گا۔ سنگ آمد و سخت آمد۔ 

جب ’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے‘‘ کی صورت آن پڑی، تو دوسرے ٹھکانے کی تلاش ہوئی۔ دونوں سرملا کر بیٹھے، مشورے کیے، رزولیوشن پاس ہوئے، آخر یہ تجویز پاس ہوئی کہ ’’خاک از تو دہ کلاں بردار‘‘ کے مقولے پر عمل کرکے کسی زبر دست مولوی کو گھیرنا چاہئے۔ دلی میں دو تین بڑے عربی داں مانے جاتے تھے، ایک مولوی محمد اسحاق صاحب، دوسرے شمس العلماء مولوی ضیاء الدین خاں صاحب ایل ایل ڈی، اور تیسرے مولوی نذیر احمد خاں صاحب۔ پہلے کو تو دیوانگی سے فرصت نہ تھی، اس لیے وہاں تو دال گلتی معلوم نہیں ہوئی، قرعہ دوسرے صاحب کے نام پرپڑا۔ 

گرمیوں کا زمانہ تھا، مولوی ضیاء الدین صاحب جامع مسجد میں رات کے دس گیارہ بجے تک بیٹھے وظیفہ پڑھا کرتے تھے، ہم دونوں نے بھی جا کر شام ہی سے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ڈیرے ڈال دیے۔ آٹھ بے، نو بجے، دس بج گئے۔ مولوی صاحب نہ آج نکلتے ہیں نہ کل۔ خدا خدا کر کے دروازے سے قندیل نکلتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ہم دونوں بھی ہاتھ پاؤں جھٹک، خوشامد کے فقرے کے فقرے سوچ کھڑے ہو گئے۔ 

ہم آخری سیڑھیوں پر کھڑے تھے، اس لئے دروازے میں سے پہلے قندیل نکلتی نظر آئی، اس کے بعد جس طرح سمندر کے کنارے سے جہاز آتی دکھائی دیتا ہے اسی طرح پہلے مولوی صاحب کا عمامہ، اس کے بعد ان کا نورانی چہرہ، سر مگیں آنکھیں، سفید ریش مبارک، سفید جبہ اور سب سے آخر زرد بانات کی سلیم شاہی جوتیاں نظر آئیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے سیڑھیوں سےاترنا اور اوپر تلے ہمارے سانس نے چڑھنا شروع کیا۔ ہم سوچتے ہی رہے کہ راستہ روک کر کھڑے ہو جائیں، وہ سٹ سے پاس سے نکل گئے۔ 

آخر ذرا تیز قدم، چل کر ان کو جا لیا اور نہایت ادب سے دونوں نے جھک کر فرشی سلام کیا۔ وہ سمجھے کوئی راہ گیر ہیں، میری وجاہت کی وجہ سے سلام کر رہے ہیں۔ یہ نہ سمجھے کی سائل ہیں، ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے۔ وہ تو سلام لیتے ہوئے آگے بڑھے اور ہم نے وہی پہلی والی ترکیب کی کہ چکر کھا کر پھر سامنے آگئے۔ یہ دیکھ کر وہ ذرا ٹھٹکے، پوچھا، میں نے آپ صاحبوں کو نہیں پہچانا، کیا مجھ سے کوئی کام ہے؟ رام کہانی بیان کر کے عرض مدعا زبان پر لائے۔ فرمانے لگے، تم کو معلوم ہے کہ میں پنجاب یونیورسٹی کا ممتحن ہوں۔ بجنسہ اسی لہجے میں یہ الفاظ ادا کئے جیسے اس زمانے میں کوئی کہے، تم کو معلوم ہے کہ میں سی آئی ڈی کا انسپکٹر ہوں۔ لیکن ہم جان سے ہاتھ دھوئے بیٹھے تھے، عرض کیا کہ ہم امتحان میں رعایت کے طالب نہیں، تعلیم میں مدد چاہتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ تم کو تعلیم دینا اور پھر ممتحن رہنا میرے ایمان کے خلاف ہے، کسی دوسرے کی تلاش کیجئے۔ 

ممکن ہے کہ یہ مسئلہ کوئی جزو ایمان ہو، ممکن ہے کہ پنجاب یونیورسٹی نے مولوی صاحب سے تعلیم نہ دینے کا حلف لے لیا ہو، بہر حال کچھ بھی ہو، انہوں نے ہم دونوں کو سلام علیکم کا ایک زور سے دھکا دے کر نوکر کو حکم دیا کہ آگے بڑھو۔ وہ حکم کا بندہ قندیل اٹھا، آگے چلا اور مولوی صاحب اس کے پیچھے پیچھے لمبے لمبے ڈگ بھرتے روانہ ہوئے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ دونوں قطاع الطریق پھر راستہ نہ روک لیں، مگر مولوی صاحب کےطرز عمل اور سلام علیکم کے جھٹکے نے ہم دونوں کو مضمحل کر دیا تھا۔ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور مولوی صاحب رہٹ کے کنویں کی گلی میں گھس، اپنے مکان میں داخل ہو گئے۔ چلو امید نمبر دو پر پانی پھر گیا، لیکن آئندہ کے لئے سبق مل گیا کہ ایسے زبردست دشمن پر کھلے میدان میں حملہ کرنا خطرناک ہے، ایسے رستم کو پکڑنے کے لئے شغاد بننا ضروری ہے۔ 

وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر کونسل ہوئی او رزولیوشن پاس ہوا کہ مولوی نذیر احمد صاحب پر حملہ عبد الرحمان کی آڑ میں کیا جائے۔ اب میاں عبد الرحمان کا حال بھی سن لیجئے۔ ان کے والد کا نام سراج الدین صاحب تھا۔ نہایت نیک اور پرہیز گار شخص تھے۔ جوتوں کی دکان تھی۔ مولوی نذیر احمد صاحب اس دکان کو ہمیشہ رقمی مدد دیا کرتے تھے اور روزانہ شام کو وہاں آ کر بیٹھتے تھے۔ عبد الرحمان میرے ہم جماعت نہ تھے لیکن آپس میں میل جول بہت تھا۔ مولوی صاحب کو ان کی تعلیم کا بہت خیال تھا، چنانچہ انہیں کی وجہ سے عبد الرحمن نے بی اے، ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ انہی کی وجہ سے وکالت میں ترقی کی، یہاں تک کہ مولوی صاحب ہی کی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت دہلی میں ان کی ٹکر کا کوئی مسلمان وکیل نہیں ہے۔ اس زمانے میں یہ ایف اے میں پڑھتے تھے۔ 

بہر حال اسکیم تیار ہو گئی اور دوسرے ہی دن میں نے عبد الرحمان کو گانٹھنا شروع کیا۔ دو ایک روز کے بعد ان سے اظہار مطلب کیا۔ کہنے لگے کہ بھئی مولوی صاحب کو فرصت کم ہے کہیں انکار نہ کر بیٹھیں۔ میں نے کہا کہ میاں عبد الرحمان! تم ان تک ہم کو پہنچا دو، اگر ہو سکے تو ایک دو کلمہ خیر بھی ہمارے حق میں کہہ دو، آگے ہم جانیں اور ہماری قسمت۔ وہ راضی ہوگئے اور کہا کہ شام کو آٹھ بجے دکان پر آجانا، میں مولوی صاحب سے ملوا دوں گا، اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ 

ٹھیک آٹھ بجے ہم دونوں سراج الدین صاحب کی دکان پر پہنچے۔ یہ دکان فتح پوری کی مسجد کے قریب تھی۔ جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ مولوی صاحب بیٹھے سراج الدین سے کچھ رقم کا حساب کر رہے ہیں۔ ہم نے جاتے ہی فرشی سلام کیے اور خاموش تخت کے کونے پر بیٹھ گئے۔ سراج الدین صاحب نے خیریت پوچھی، عبد الرحمان ہمارے پاس آبیٹھے، مگر مولوی صاحب روپیوں کے حساب کتاب میں اس قدر مشغول تھے کہ انہوں نے دیکھا بھی نہیں کہ کون آیا، کون گیا۔ میں نے سوچا کہ یہاں بھی معاملہ پٹتا معلوم نہیں ہوتا، دھتکار سن کر یہاں سے بھی نکلنا پڑے گا۔ سچ ہے، مایوسی انسان کو ہمت والا بنا دیتی ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا، میں نے بھی سوچ لیا کہ آج اس پار یا اس پار۔ مولوی ضیاء الدین صاحب تو بچ کر نکل گئے، لیکن مولوی نذیر احمد صاحب سے دو دو ہاتھ ہو جائیں گے۔ 

قصہ مختصر، مولوی صاحب حساب سے فارغ ہوئے اور پوچھا کہ یہ دونوں صاحب کون ہیں؟ عبد الرحمان نے ہمارے نام بتائے، کچھ الٹے سیدھے خاندانی حالات بھی بیان کئے، ا س کے بعد ہماری مصیبت کا بھی ذرا سا تذکرہ کیا اور خاموش ہوگئے۔ میں نے دل میں کہا، پرائے برتے کھیلا جوا، آج نہ موا کل موا۔ اب میاں عبد الرحمان کو رہنے دو، جو کچھ کہنا ہے خود کہہ ڈالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے بھی بے نیل مرام باضابطہ پسپائی ہو۔ میں نے نہایت رقت آمیز لہجے میں اپنی مصیبت کا تذکرہ شروع کیا۔ فرمانے لگے، تو عربی چھوڑ دو، سائنس پڑھو۔ بیٹا! آج کل مسلمانوں کو سائنس کی بڑی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں مثل ہے، پڑھیں فارسی بیچیں تیل، یہ دیکھو قدرت کے کھیل۔ فارسی پڑ کر تیل تو بیچ لوگے، عربی پڑھ کر تیل بیچنا بھی نہ آئے گا۔ 

ان کی اس پر مذاق گفتگو سے ہم دونوں کے دل بڑھ گئے۔ ہم رہنے والے ٹھہرے جامع مسجد کے نیچے کے، بھلا ایسی باتوں میں ہم سے کون اور آ سکتا ہے۔ ہم نے بھی ایسے ہی شگفتہ الفاظ میں جواب دیا۔ مولوی صاحب پہلے تو مسکراتے رہے۔ اس کے بعد کھلکھلا کر ہنس دیے۔ دانی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ بڑا غریب معلوم ہوتا ہے، مگر تو بڑا بدمعاش ہے۔ بیٹا! جاؤ کسی دوسرے مولوی صاحب کی تلاش کرو۔ دلی میں کیا مولویوں کا کال ہے۔ مجھے ذرا بھی فرصت ہوتی تو کبھی انکار نہ کرتا۔ میں نے عرض کی کہ جناب والا کا ارشاد بالکل صحیح ہے مگر جو مولوی ہیں وہ پڑھاتے نہیں اور جو پڑھاتے ہیں، وہ مولوی نہیں ہیں۔ 

کہنے لگے، نہیں، ایک آدھ ایسا بھی نکل آئے گا جو مولوی بھی ہوگا اور پڑھائے گا بھی۔ جناب شمس العلماء مولوی ضیاء الدین خاں صاحب ایل ایل ڈی ( یہ الفاظ بہت طنز سے کہے) کے پاس جاؤ، ا ن کو فرصت بھی ہے اور عالم بھی ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ وہ پنجاب یونیورسٹی کے ممتحن بھی کہنے لگے۔ میں اس کا مطلب نہیں سمجھا۔ یہاں تو جلے بیٹھے ہی تھے، جامع مسجد کی سیڑھیوں والا واقعہ خوب نمک مرچ لگا کر بیان کیا۔ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ بھئی، تم لونڈوں سے ڈرنا چاہئے۔ ضیاء الدین کو اگر خبر ہو جائے کہ ان کے اوصاف حمیدہ و خصائل پسندیدہ سراج الدین کی دکان پر اس طرح معرض بحث میں آتے ہیں تو یقین جانو کی نالش ٹھونک دیں۔ اچھا بھئی میں تم کو پڑھاؤں گا مگر تم بھاگ جاؤ گے۔ 

ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا، نہیں ہرگز نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا چھٹی ایک دن کی نہ ہوگی۔ ہم نے کہا بہت خوب۔ مولوی صاحب نے کہا کہ عید بقر عید کو بھی آنا پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ بہت مناسب، کل کس وقت حاضر ہوں؟ مولوی صاحب تھوڑی دیر تک انگلیوں پر کچھ اپنے وقت کا حساب کرتے رہے، اس کے بعد کہا، ’’دوپہر کو ڈیڑھ بجے۔‘‘ ہم نے کہا، بہت خوب۔ چونکہ ان باتوں میں رات زیادہ ہو گئی تھی، اس لئے مولوی صاحب دکان سے اٹھے۔ ہم سب نے سلام کیا اور وہ و علیکم السلام کہتے ہوئے تشریف لے گئے۔ 

یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ سراج الدین صاحب وقتاً فوقتاً ہماری ہاں میں ہاں ملا کر اس فیصلے میں بڑی مدد کی۔ ہم دونوں بھی خوش خوش اٹھے اور سلام علیکم، و علیکم السلام کر کے دکان سے چلے۔ راستے میں دانی نے کہا، میاں مرزا! بڑے میاں نے مار ڈالا، بھئی گیارہ بجے کالج سے پڑھ کر نکلیں گے، کشمیری دروازے سے چل کر چوڑی والوں آتے آتے ساڑھے گیارہ بج جائیں گے۔ دم نہ لینے پائیں گے کہ مولوی صاحب کے ہاں چلنے کی تیاری کرنی پڑے گی۔ کہاں چاوڑی اور کہاں کھاری باولی، جون کامہینہ؟ کہیں راستے میں لو لگ کر ٹیں نہ ہو جائیں! 

✍️: مرزا فرحت اللہ بیگ
𑁔𑁔★ جاری ہے ۔ ۔ ۔ ★𑁔𑁔

تبصرے